وجے دِوس‘ کی اہمیت’

0

  سولہ  دسمبر کئی معنوں میں ہندوستان اور بنگلہ دیش کی تاریخ کا ایک اہم دن ہے۔ 1971 کو اسی دن پاکستانی فوج نے ہندوستانی فوج کے سامنے ہتھیار ڈالے تھے۔ پاکستانی فوج کی یہ خودسپردگی 13 دنوں تک چلی جنگ کے خاتمے کا اعلان تھی تو اس بات کا اشارہ بھی تھی کہ 16دسمبر 1971 کے پہلے کے 9 برس میں ہندوستان کافی مضبوط ہو گیا ہے۔ وہ ایک علاقائی طاقت ہے، اب آگے اسے مزید طاقتور ہونا ہے۔ بھارتیہ فوج کے سامنے پاک فوج کی خودسپردگی اس بات کا بھی اشارہ تھی کہ کسی علاقائی ایشو پر ہندوستان کی حمایت کا مطلب کیا ہے۔ یہ ذکر بے محل نہ ہوگا کہ 1971 کی جنگ اور پاکستان کی تقسیم پر سبھی امریکیوںکی آرا یکساں نہیں تھیں۔ 1962 میں چین نے ہندوستان کے خلاف جنگ چھیڑی تھی، پھر 1965 میں پاکستان نے جنگ چھیڑ دی تھی۔ 9 سال میں ہی تیسری جنگ کرنا آسان نہ تھا۔ 1971 میں ہندوستان کا ایک اور جنگ کرنا بظاہر دانشمندانہ قدم نہ تھا لیکن ہندوستان کی اس وقت کی وزیراعظم اندرا گاندھی یہ جانتی تھیں کہ ملک پاکستان کو بھرپور جواب دینے کی پوزیشن میں ہے، اس جنگ سے بنگلہ دیش کے لوگوں کا مسئلہ ہمیشہ کے لیے حل ہوجائے گا اور ایک خطے کی ہندوستان سے دشمنی دوستی میں بدل جائے گی، چنانچہ قیام کے ساتھ ہی بنگلہ دیش کی ہندوستان سے دوستی کی باضابطہ شروعات ہوگئی۔ اس دوستی کا احترام ہندوستان کرتا ہے تو بنگلہ دیش نے بھی اسے ہمیشہ اہمیت دی ہے۔ اسی دوستی کا نتیجہ تھا کہ بنگلہ دیش سے ہندوستان آنے والے لوگوں نے کچھ نہیں سوچا۔ اگر سوچتے تو ہندوستان کی سیاست میں ’گھس پیٹھیا‘ اور ’شرنارتھی‘ جیسے الفاظ استعمال نہیں کیے جاتے، یہ دو الفاظ قومی سیاست میں اہمیت کے حامل نہیں بن پاتے، این آر سی متعارف نہیں کرائے جاتے۔
بنگلہ دیش میں حالات خراب ہونا شروع ہوئے تھے تو یہاں کے لوگوں نے پناہ کی تلاش میں ہندوستان کا رخ کیا تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے پناہ گزینوں کی تعداد کافی بڑھ گئی تھی۔ وزیراعظم اندرا گاندھی پر یہ دباؤ تھا کہ پناہ گزینوں کی مسلسل بڑھتی ہوئی تعداد کا کوئی مستقل حل نکالیں۔ یہ حل بنگلہ دیش کے عالم وجود میں آجانے سے خود بخود نکل گیا تو بنگلہ دیش اور ہندوستان کے درمیان بھی اسی طرح کی سرحدوں کی تعمیر کی جانی چاہیے تھی جیسی سرحدیں ہندوستان کے دیگر پڑوسیوں کے درمیان ہیں لیکن بنگلہ دیش سے ہندوستان نے اسی طرح کے تعلقات رکھنے کی کوشش کی جیسے تعلقات نیپال اور بھوٹان سے تھے۔ جلد ہی ہندوستان کی شمال مشرقی ریاستوں میں یہ ایشو سرخیوں میں آنے لگا کہ بنگلہ دیش کے لوگوں نے بڑی تعداد میں آکر ہندوستان کی شہریت لے لی ہے۔ ہندوستان کے اصلی شہریوں کا پتہ چلانے کے لیے آسام میں این آر سی کا عمل شروع ہوا۔ یہ متنازع رہا، کیونکہ ان لوگوں کے نام بھی شہریت کی فہرست میں شامل نہیں کیے گئے جو ہندوستان کی فوج میں باضابطہ نوکری کرچکے تھے، سرکاری ٹیچر تھے یا دیگر سرکاری اداروں میں کام کر چکے تھے۔
لاکھوں لوگوں کے نام آسام کی این آر سی میں نہیں آئے۔ اس کے بعد سی اے اے لایا گیا۔ اس کے تحت پاکستان اور افغانستان کے ساتھ بنگلہ دیش میں بھی جو ستائے ہوئے ہندو، سکھ، بدھسٹ،جین، پارسی اور عیسائی ہندوستان آئے ہیں، انہیں شہریت دی جائے گی۔ اس طرح یہ بات واضح ہو گئی کہ این آر سی میں جو لوگ نہیں آئیں گے، ان میں متذکرہ مذاہب کے لوگوں کو ہی سی اے اے کے توسط سے شہریت دی جائے گی۔ سی اے اے پر بنگلہ دیش کے لیڈروں نے ردعمل ظاہر کیا۔ بنگلہ دیش کی وزیراعظم شیخ حسینہ نے ایک انٹرویو میں کہا کہ یہ ہندوستان کا اندرونی معاملہ ہے اور یہ بھی کہا، ان کی سمجھ میں یہ بات نہیں آئی کہ (حکومت ہند) یہ قانون کیوں لائی۔ یہ بہت ضروری نہیں تھا۔ لیکن آج 16 دسمبر کا دن یہ احساس دلاتا ہے کہ ہندوستان اور بنگلہ دیش کی دوستی کی تاریخ 49 سال پرانی ہو گئی ہے اور وزیراعظم نریندر مودی کے لفظوں میں کہیں تو دونوں ملک ساتھ ساتھ بھی ہیں، پاس پاس بھی ہیں۔ حکومت ہند کی طرف جہاں یہ کوشش ہونی چاہیے کہ اندرونی سیاست کے منفی اثرات ہندوستان اور بنگلہ دیش کے تعلقات پر نہ پڑیں وہیں بنگلہ دیش کی طرف سے بھی یہ کوشش ہونی چاہیے کہ وہ ہندوستان سے اپنے تعلقات کی اہمیت کو سمجھے، تعلقات مستحکم سے مستحکم تر بنائے۔ دونوں ملکوں کے بہتر تعلقات میں دونوں ملکوں کے عوام کی فلاح ہے، یہ بات دونوں ہی حکومتوں کے لیے ناقابل فہم نہیں ہے!
[email protected]
 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS