خاشقجی قتل، نیا انکشاف

0

جمال خاشقجی کے قتل نے اظہار رائے کے حامی اور انسان دوست لوگوں کو ہلاکر رکھ دیا تھا۔ ان کا قتل جس طرح ہوا، اپنے آپ میں وہ حیرت انگیز تھا۔ قتل کے بعد صحافی جمال خاشقجی کی باقیات کو جس طرح غائب کیا گیا، اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں تھا کہ یہ قتل بھلے ہی ایک صحافی کا ہوا ہو مگر اس کی تیاری بڑے پیمانے پر اور بڑے منظم طریقے سے کی گئی تھی اور اب اس سلسلے میں امریکہ کی طرف سے آنے والی رپورٹ پر اگر یقین کیا جائے تو جمال خاشقجی کے قتل میں سعودی ولی عہد کے ملوث ہونے کا اندیشہ پیدا ہوتا ہے۔ اسلامی نظام اور غیر جانبدارانہ عدل کے لیے دنیا بھر میں مشہور سعودی عرب کے شاہ سلمان کیا اپنے ہی ولی عہد کے خلاف ایماندارانہ مقدمہ چلنے دیں گے؟ کیا جمال خاشقجی کو بعد از مرگ ہی سہی، انصاف مل پائے گا؟ اگر ایسا نہیں ہوا تو کیا عالمی برادری یہ سمجھنے میں حق بجانب نہ ہوگی کہ سعودی عرب میں انصاف کیسے اور کسے دیا جاتا ہے؟ سوال اور بھی ہیں، حیرت میں ڈالنے والی باتیں اور بھی ہیں۔ جمال خاشقجی کے قتل کے سلسلے میں یہ بات حیرت میں ڈالنے والی ہے کہ امریکہ کو قتل کی حقیقت معلوم تھی، اس کے باوجود سابق امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے چپکی سادھے رکھی، البتہ یہ بات ٹرمپ نے کہی تھی کہ انہوں نے سعودی شاہ سلمان کو متنبہ کر دیا ہے کہ وہ امریکی فوج کی مدد کے بغیر دو ہفتے بھی اقتدار میں نہیں رہ سکتے۔کیا یہ سمجھا جائے کہ ٹرمپ نے یہ بات اس لیے کہی تھی، کیونکہ وہ سعودی شاہ کے سب سے چہیتے بیٹے اور سعودی ولی عہد کی حقیقت جانتے تھے اور یہ بھی جانتے تھے کہ شاہ سلمان کا ان پر بڑا انحصار ہے؟ کیا یہ بات محض اتفاق تھی کہ 2 اکتوبر، 2018 کو ڈونالڈ ٹرمپ نے یہ بات کہی اور 2 اکتوبر، 2018 کو ہی استنبول میں سعودی عرب کے قونصل خانے میں ’دی واشنگٹن پوسٹ‘ کے کالم نگار جمال خاشقجی کا قتل ہوا تھا؟
جمال خاشقجی کے قتل کا دوسرا اہم پہلو یہ ہے کہ ترکی کی حکومت کے ساتھ دیگر ممالک کی انٹلیجنس ایجنسیاں بھی قتل کے بارے میں جانتی تھیں مگر سب نے خاموشی اختیار کیے رکھی۔ بی بی سی کے سیکورٹی نامہ نگار، فرینک گارڈنر نے لکھا ہے کہ ’خاشقجی کے قتل میں ولی عہد کے ملوث ہونے کے متعلق، مغربی انٹلیجنس ایجنسیوں کو بہت پہلے سے معلوم تھا لیکن اس حقیقت کو منظرعام پر نہیں لایا گیا تھا۔‘ فرینک کے مطابق، ’جینا ہاسپل جو 2018 سے رواں برس کے آغاز تک سی آئی اے کی سربراہی کر رہی تھیں، پہلے انقرہ گئیں جہاں انہیں ترک انٹلیجنس نے آڈیو ٹیپ سنوائی۔ یہ سعودی قونصل خانے میں خاشقجی کے مایوسی میں گھرے آخری لمحات تھے۔ وہاں انہیں ریاض سے آنے والے ایجنٹوں کی جانب سے قابو کیا جا چکا تھا اور ان کی سانس بند کی جارہی تھی۔‘جمال خاشقجی کے قتل کا تیسرا اور اہم پہلو یہ ہے کہ ترکی نے سعودی قونصل خانے میں خفیہ ریکارڈنگ کی۔ فرینک گارڈنر کا یہ کہنا بجا ہے کہ ’سعودی قونصل خانے کے اندر ترکی کی جانب سے خفیہ ریکارڈنگ کرنا، ایک سفارتی غلطی تھی جسے خاشقجی کے خوفناک قتل کے باعث نظرانداز کیا گیا۔ اس ویڈیو کو دوسری مغربی انٹلیجنس ایجنسیوں کے ساتھ شیئر کیا گیا ہے۔‘ اور اب ’امریکی حکام کا کہنا ہے کہ سی آئی اے اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ درمیانے درجے سے اعلیٰ سطح تک محمد بن سلمان اس قتل میں ملوث تھے۔‘ان حالات میں سوال یہ ہے کہ کیا امریکہ ایران سے گفتگو کی راہ ہموار کر رہا ہے اور اسی لیے بائیڈن حکومت نے یہ اشارہ دینے کی کوشش کی ہے کہ وہ ٹرمپ حکومت کی طرح سعودی حکومت کی حامی نہیں؟ سوال یہ بھی ہے کہ کیا سعودی ولی عہد کا نام جمال خاشقجی کے قتل میں آنے سے سعودی اور امریکہ کے تعلقات پہلے جیسے نہیں رہیں گے؟ ایسا لگتا نہیں کہ سعودی عرب کے امریکہ سے تعلقات خراب ہوں گے۔ شاہ سلمان جانتے ہیں کہ ان کا ملک کتنا طاقتور ہے، وہ یہ جانتے ہیں کہ صدام حسین اسی وقت تک بچتے رہے تھے جب تک ان کے تعلقات امریکہ سے اچھے تھے، کیونکہ دجیل کے جس واقعے کی وجہ سے انہیں 5 نومبر، 2006کو مجرم قرار دیا گیا تھا، وہ واقعہ برس دو برس پہلے نہیں، 8 جولائی، 1982 کو ہوا تھا مگر امریکہ جانتا ہے کہ اسے کب کس معاملے کا کیسے استعمال کرنا ہے۔ سعودی ولی عہد کے لیے مشکل کی بات یہ ہوگی کہ اب ان کے مغربی حامیوں کے لیے بھی ان کی حمایت کرنا آسا ن نہیں ہوگا۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS