کسان اور مزدورکی حرماں نصیبی

0

   انسانی ز ندگی کے ہر پہلو میں دکھوں ، مصیبتوں ، تکلیفوں اور مسائل کا ایک نہ ختم ہونے کا سلسلہ جاری ہے ۔ زندگی کے سفر کو آسان بنانے اور ان مسائل سے نجات حاصل کرنے کیلئے انسان مقدور بھر چہار جانب ہاتھ پائو ں مارہاہے، لیکن مصیبتیں اور مسائل ہیں کہ بڑھتے ہی چلے جارہے ہیں ۔حکومت کی ’ ہمہ دانی‘ کے زعم نے گزشتہ کچھ عرصہ سے جو بدتدبیری اختیار کی ہے اس نے بھی ان مسائل کو کئی گنا بڑھادیا ہے ۔ملک کی تقریباً سواارب کی آبادی کی معاش میں دو تہائی سے زیادہ کا حصہ زراعت اور کاشت سے منسلک ہے ۔کل گھریلو پیداوار میں زراعت کا حصہ 17فی صد سے بھی زیادہ ہے جس کا کل حجم2.3ارب ڈالر بنتا ہے ۔ملکی معیشت میں خطیر حصہ ڈالنے والے کاشتکار اور کسان، زراعت سے نہ صرف اپنی روزی روٹی چلاتے ہیں بلکہ پورے ملک کی غذائی ضروریات ان کی محنت کے طفیل ہی پوری ہوتی ہیں۔لیکن ستم یہ ہے کہ ان کاشتکاروں کونہ تو ان کی محنت کامعاوضہ صحیح مل پاتا ہے اور نہ ہی فصل کی مناسب قیمت انہیں کبھی مل پاتی ہے۔ 
پیداواری لاگت میں مسلسل اضافہ کی وجہ سے قرضوں کے بوجھ تلے دبے ان کسانوں کی آزادی کے نام پر مودی حکومت نے حالیہ دنوں تین قانون بنائے اور زرعی شعبہ کو لبرلائز کرنے کا اعلان کردیا ۔اعتماد میں لیے بغیرکی جانے والی اس قانون سازی نے جہاںکسانوں کومشتعل کردیا ہے، وہیں اس قانون کے اطلاق کی صور ت میں ہونے والے نقصانات کے تصور نے انہیں ’ کرو یا مرو ‘ کے دوراہے پر لاکھڑا کیا ہے ۔
26نومبر کو کسانوں کا احتجاج، دہلی مارچ اور مرکزی ٹریڈ یونینوں کی جانب سے عام ہڑتال اسی پس منظر میں بلائی گئی تھی۔ لیکن پرامن احتجاج اور دہلی مارچ کو جس طرح طاقت کے بل بوتے پر کچلنے کی کوشش کی گئی وہ کسی جمہوری ملک کے لیے مناسب نہیں ہے۔ ہریانہ اورآس پاس کی دوسری ریاستوں سے دہلی پہنچنے والے کسانوں پرسردی کے اس موسم میں ٹھنڈے پانی کی بوچھار ،اشک آورگولے کا داغاجانا، لاٹھی چارج اور بے محابہ گرفتاری یہ بتارہی ہے کہ حکومت کسانوں کے مسائل پر بات کرنا تو دور انہیں ایوان اقتدار کے آس پاس بھٹکتے ہوئے بھی نہیں دیکھنا چاہتی ہے۔پرامن طریقہ سے مارچ کرنے اور اپنے حق کیلئے آواز اٹھانے والے کسانوں سے نمٹنے کیلئے ہریانہ اور دہلی کی پولیس نے جو تدبیریں اختیار کی ہیں، اس کی ہر طرف سے مذمت ہورہی ہے۔دہلی کے وزیراعلیٰ اروند کجریوال نے بھی کسانوں کے احتجاج کو روکے جانے کو غلط قرار دیا ہے۔کجریوال نے زراعت سے متعلق تینوں قوانین کوکسان مخالف قرار دیتے ہوئے کہا کہ پرامن احتجاج اور مظاہرہ کسانوں و مزدوروں کاآئینی حق ہے، اس حق کے استعمال میں انہیں روکا نہیں جانا چاہیے۔کسانوںکا کہنا ہے کہ معاشی کھلے پن کے نام پر زراعت کو لبرلائزکرنا کسانوں کیلئے خودکشی کاسامان کرنے جیسا ہے ۔ پارلیمنٹ کے مانسون اجلاس کے دوران 20ستمبر کو زراعت سے متعلق جو تین قوانین بنائے گئے ہیں، ان میں کسانوںکی بجائے سرمایہ داروں کے مفاد کو سامنے رکھاگیا ہے اور ان کے ذریعہ سرمایہ داروں کو کھلی چھوٹ دی گئی ہے کہ وہ جتناچاہیں کسانوں کا لہو نچوڑ سکیں۔ کاشت و زراعت سے متعلق یہ قوانین ایک جانب ذخیرہ اندوزی کی حوصلہ افزائی کرتے ہیںتو دوسری جانب ضروری اشیا کی قلت کا سبب بننے والے ہیں۔اس قانون کے اطلاق کے نتیجہ میں وقت اور مقدار کی قید کے بغیر پیداوار کو ذخیرہ کیا جاسکے گا۔ اس کا نتیجہ ہوگا کہ ایسی فصلوں کی کاشت میں اضافہ ہوگا جو کہ ذخیرہ کی جاسکتی ہیں جس سے ایک جانب مہنگائی بڑھے گی تو دوسری جانب لازمی اشیا کی قلت بھی پیدا ہوگی ۔مستقبل کے معاہدوں کی حوصلہ افزائی کرکے اس بنیادی شعبہ میں بھی سٹے بازی کی راہ نکال دی گئی ہے ۔ یہ تمام اقدامات کسان اور عام آدمی کے خلاف ہیں۔ جب کہ مزدور یونینیں ملک کی معاشی پالیسی، سرمایہ کشی اور تیزی سے کی جارہی نجکاری کے خلاف صف آرا ہیں۔ 
ملک کے25کروڑ سے زیادہ کسانوں اور محنت کشوں کی اس ہڑتال اور احتجاج کو حکومت بھلے ہی ناکام قرار دے یا سیاست زدہ بتائے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ملک کے محنت کشوں کی کل آبادی نے اس ہڑتال کا ساتھ دیا ہے۔ حتیٰ کہ بینک ملازمین بھی اس میں شامل ہوئے اور یہ پیغام دیا کہ حکومت کی پالیسیاں کسانوں ، مزدوروں اور محنت کشوں کے خلاف ہیں ۔
یہ اہم اور سلگتے ہوئے مسائل حکومت کی بھر پور توجہ کے متقاضی ہیں۔ہونایہ چاہیے کہ حکومت کسانوں او ر محنت کشوں کے نمائندوں کے ساتھ گفتگو کرے اور ان کے تحفظات دورکرنے کی کوشش کرے لیکن اس کے برخلاف حکومت طاقت کا استعمال کرکے ان کی زبان بند کرنا چاہتی ہے جو کہ سراسرغیر آئینی اورغیر جمہوری اقدام ہے ۔کھیتیوںاور کھیت بانوں کو روند کراپنے سیاسی رتھ کے پہیہ کو تیز گام کرناملک کو تباہی کے غار میں لے جانا ہے۔ اب بھی وقت ہے کہ حکومت اپنا قبلہ درست کرلے اور کسانوں ، مزدوروں اور محنت کشوں کے مطالبات پر سنجیدگی سے غور کرے۔حکومت کا بنیادی کام ایک سخت گیر منتظم کا نہیں بلکہ روشن خیال اور کشادہ دل سرپرست کا ہوناچاہیے جو ملک کے ہر طبقہ کی ضروریات کو دھیان میں رکھتے ہوئے کام کرے اورا نسانی زندگی کو آسان بنائے۔
[email protected]
 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS